قربانی کے متعلق سوالات

  • Admin
  • Dec 21, 2021

قربانی کا جانور خرید کر پھر بیچنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 غنی نےقربانی کی نیت سےجو جانورخریدا اگروہ اسے بیچتا ہے اور اس کی قیمت میں سے کچھ رقم کم کرکے      بقیہ کا دوسرا جانور خرید ے،تو بیچنا  ناجائز ہے  اوریہ گنہگار  ہوا ، اس پر توبہ لازم ہے اور  بچائی ہوئی رقم  صدقہ کر دے  اور اگراسے بیچ کر اس کی مثل دوسرا جانور لانا چاہتا ہے  ،تو بھی بیچنا مکروہ تحریمی  وگناہ ہے، ہاں  اگر اس سے بہتر جانور لاناچاہتا  ہے،تو  بیچناجائز ہے۔ 

    جب جانور خریدتے وقت دوسروں کو شریک کرنے کی نیت نہ ہو ، تو اس کے حصے بیچنے سےمتعلق درمختارمع ردالمحتار میں ہے:’’ان نوی وقت الشراء الاشتراک  صح  استحساناً و الا لا استحساناً وفی الھدایہ :و الاحسن ان یفعل  ذلک قبل الشراءلیکون  ابعد عن الخلاف و عن صورۃ  الرجوع  فی القربۃ ۔و فی الخانیۃ :ولو لم ینو  عند الشراء ثم اشرکھم  فقد کرھہ ابو حنیفۃ‘‘ترجمہ:اگر جانور خریدتے وقت دوسروں کو شریک کرنے کی نیت کی،تو استحساناً صحیح ہے، ورنہ شریک کرنا استحساناً صحیح نہیں ہے اور ہدایہ میں ہے:بہتر یہ ہے کہ خریدنے سے پہلے یہ (دوسروں کو شریک کرنے  کا عمل )کرلےتاکہ اختلاف اورقربت میں رجوع کرنے کی صورت سے بچ جائے ‘‘اور خانیہ میں ہے : اگراس نےخریداری  کے وقت  نیت نہیں کی ،پھر دوسروں کو شریک کیا ،تو امام اعظم علیہ الرحمۃ نے اسے مکروہ کہا ہے ۔

(رد المحتار علی الدر المختار ،کتاب الاضحیۃ،جلد 9،صفحہ 527،مطبوعہ کوئٹہ)

    قربانی کی نیت سے خریدا ہوا جانور بدلنے سے متعلق جد الممتار میں ہے :’’اقول  : تقدم فیما اذا ضلت فشری اخری فوجد الاولی فذبح الثانیۃ و  ھی اقل  قیمۃ  من الاولی تصدق بالفضل ،وذلک لانھا و ان لم تتعین   فی حق الغنی  الغیر الناذر  لکنہ  لما  شراھا للاضحیۃ  فقد نوی اقامۃ  القربۃ   بھا ،فاذا  ابدلھا بما  دونھا  کان رجوعاً عن بعض ما نوی فامر   بالتصدق ،و قد مر فی الشرح بلفظ :  (ضمن الزائد) و فی حاشیۃ  عن البدائع بلفظ: (علیہ ان یتصدق بافضلھا) ۔۔۔و قال فی الھدایۃ و التبیین : (انھا تعینت للاضحیۃ  حتی وجب ان یضحی بھا بعینھا  فی ایام النحر ،و یکرہ ان یبدل بھا غیرھا )قال فی العنایۃ  :( بعینھا فی ایام النحر  فیما  اذا  کان  المضحی فقیراً  و یکرہ   ان  یبدل   اذا  کان  غنیا )و مطلق الکراھۃ  التحریم بل زاد سعدی افندی بعد قولہ  : ’’اذا کان غنیا ‘‘ (ولکن یجوز استبدالھا  بخیر منھا عند ابی حنیفۃ و محمد رحمھما اللہ تعالی)خصھما لانھا عند ابی یوسف کالوقف ،فدل علی ان الاستبدال بغیر  الخیر  لا یجوز ۔

    وقال  فی العنایۃ  (لو اشتری اضحیۃ  ثم  باعھا و اشتری  مثلھا لم یکن بہ بأس ) فافھم ان لو کانت ادون منھا  کان  بہ بأس،  ولا بأس فی المکروہ تنزیھا  فیکرہ تحریما  بل قال علیہ  سعدی افندی   : (اقول : فیہ بحث ) ای : فی المثل ایضاً  بأس  بل یشترط  للجواز الخیرۃ کما قدّمنا عنہ‘‘ترجمہ:میں کہتا ہوں :پہلے جو مسئلہ  گزرا  کہ جب قربانی کا جانور گم ہوگیا اور مالک  نے دوسراجانور خرید لیا اور پھر پہلا مل گیا اور اس نے دوسرا جانور ،جو پہلے سے کم قیمت کاہے، ذبح کر دیا،تو وہ شخص (پہلے جانور کی دوسرے سے ) زائدقیمت صدقہ کردے اور یہ حکم اس لیے ہے کہ  اگرچہ پہلا جانور  جس غنی نے نذر نہ مانی ہو،اس کے حق میں متعین نہیں ہوا تھا ،لیکن جب اس نے قربانی کے لیے جانور خریدا ،تو اس جانور کے ذریعے اس نے قربت قائم کرنے کی نیت کر لی اور جب وہ اس  سے کم تر کے ساتھ بدلے گا ،تو یہ (بدلنا)اس  کے بعض سے رجوع کرنا ہوگا ، جس میں اس نے(قربت کی ) نیت کی تھی ،لہٰذا اسے صدقہ کرنے کا حکم دیا گیا اور شرح میں ان الفاظ کے ساتھ گزرا ہے کہ وہ زائد کا ضامن ہے اور حاشیہ میں بدائع کے حوالے سے یہ الفاظ ہیں کہ اس پر لازم ہے ،وہ دونوں کے درمیان جو زیادتی ہے ،اس کو صدقہ کرے ۔ہدایہ  اور تبیین میں فرمایا: (جو جانورپہلے خریدا تھا)وہ قربانی کے لیے معین ہوگیا حتی کہ اس پر واجب ہے کہ قربانی کے دنوں میں  بعینہ اسی جانور کی قربانی کرے اور اس کو دوسرے جانور سے بدلنا مکروہ  ہے ۔عنایہ  میں فرمایا :اگر قربانی کرنے والا شخص فقیر ہے ،تو قربانی کے دنوں میں بعینہ اسی جانور کی قربانی کرےاور اگر غنی ہے،تو اس کے لیے جانور بدلنا مکروہ ہے اور مطلق مکروہ ، مکروہ تحریمی ہوتا ہے ۔بلکہ سعدی آفندی علیہ الرحمۃ نے صاحب عنایہ کے قول:’’اذا کان غنیا ‘‘کے بعد یہ زائد کیا ۔’’ لیکن امام اعظم و محمد رحمہما  اللہ تعالیٰ کے نزدیک  قربانی کے لیے خریدے ہوئے ،جانور کو اس سے بہتر سے بدلنا جائز ہے ۔ “ تو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بہتر کے علاوہ سے بدلنا جائز نہیں اور سعدی آفندی نے ( بہتر سے بدلنے کے  جواز کو)ان دونوں (یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد)کے ساتھ خاص  اس لیے کیا ، کیونکہ امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے نزدیک قربانی کا جانور وقف کی طرح ہے۔

    اور عنایہ میں فرمایا :اگر قربانی کاجانور خریدا،پھر اسے بیچ دیا اور اس کی مثل خریدا ،تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔تو تم اس بات کو سمجھو کہ اگر دوسرا جانور پہلے  سے کم تر ہو،تو اس میں حرج ہےاور(حرج ہونا قرار دینے کا مطلب ہوا کہ یہ مکروہ تحریمی ہوگا کیونکہ) مکروہ تنزیہی میں کوئی حرج نہیں  ہوتا ، لہٰذا (حرج قرار دینے کا مطلب ہوا کہ دوسرے کا پہلے سے کم تر ہونا )مکروہ تحریمی ہے  ،بلکہ سعدی آفندی علیہ الرحمۃ نے فرمایا :میں کہتا ہوں:اس مسئلے میں بھی  بحث ہے یعنی دوسرے جانور کا پہلے کی مثل ہونے میں بھی حرج ہے،بلکہ (جانور بدلنے)کے جواز کے لیے (دوسرے کا)بہتر ہونا شرط ہے ،جیسا کہ ہم ان کے حوالے سے پہلےذکرکر چکے ہیں ۔

(جد الممتار،کتاب الاضحیۃ ،جلد6،صفحہ 459،460 ،مکتبۃ المدینہ،کراچی)          

    قربانی کے لیے خریدی ہوئی گائے کسی کو دے کر دوسرا جانور قربان کرنے سے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے:’’وہ گائے کہ بہ نیتِ قربانی خریدی ،اس کا دوسری گائے سے بدلنا بھی منع ہے کہ اللہ کے واسطے اس کی نیت کر کے پھرنا معیوب ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ ،جلد  14،صفحہ 577،رضا فاؤنڈیشن لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مفتی محمد قاسم صاحب

 

قربانی کا جانور مر جائے، تو دوسرا کم قیمت والا لینا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 پوچھی گئی صورت میں اس غنی شخص کوا ختیار ہے کہ جو بھی قربانی کے قابل جانور ہو ، اسے قربان کرسکتا ہے ۔ پہلے جانور کی قیمت کے برابر  یا اس سے  زیادہ  یا کم قیمت والا لینا، سب کی اجازت ہے ، کیونکہ جانور مرجانے کی صورت میں دوسرے کم قیمت والے جانور کی قربانی کرنے سے پہلے جانور سے کسی قسم کے منافع حاصل نہیں کیے جارہے اور جب کسی قسم کے منافع حاصل نہیں کیے جارہے ، تو اب کم قیمت والے جانور کی قربانی میں بھی کوئی حرج نہیں ، ہاں قربانی کے لیے خریدنے کے بعد غنی شخص اگر جانور بدلنا چاہے، تو حکم یہی ہے کہ اس جانور سے اعلی جانور سے بدلنے کی اجازت ہے ،پہلے جانور کی مثل یا اس سے کم قیمت والے سے بدلنے کی اجازت نہیں ، مگر مر جانے کی صورت میں یہ حکم نہیں ہے ، بلکہ فقہائے کرام مطلقاً فرماتے ہیں کہ دوسرا کوئی جانور قربان کرے اور اپنا واجب ادا کرے ، البتہ بہتر یہ ہے کہ  اچھا ، فربہ جانور ذبح کیا جائے ۔

    یاد رہے کہ یہ مسئلہ غنی کے پہلے جانور کے مر جانے کی صورت میں ہے ، البتہ چوری یا گم ہونے اور ایام قربانی تک  اسے دوبارہ مل جانے کی صورت میں مسئلہ جدا ہے ۔

    چنانچہ ہدایہ شریف میں ہے :’’ قالوا  إذا ماتت المشتراة للتضحية  على الموسر مكانها أخرى ولا شيء على الفقير  “یعنی فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب قربانی کے لیے خریدی گئی بکری مر گئی ہو، تو خوشحال ،غنی پر دوسری بکری کرنا لازم ہے، جبکہ فقیر پر کچھ لازم نہیں ۔

           (الھدایۃ،کتاب الاضحیۃ ، جلد4، صفحہ 407، دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

    اس کی شرح بنایہ میں ہے : ” إذا ماتت المشتراة للتضحية على الموسر مكانها أخرى أي قال المشائخ رَحِمَهُمُ اللہ إذا ماتت الشاة المشتراة لأن التضحية على الغني مكان هذه شاة أخرى ولا شيء على الفقير يعني إذا ماتت المشتراة لأنها كانت متعينة وماتت كما ذكرنا“ ترجمہ : قربانی کے لیے خریدی ہوئی بکری جب مر جائے ، تو غنی پر دوسری بکری کی قربانی کرنا لازم ہے ۔ یعنی مشائخ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب قربانی کے لیے خریدی ہوئی بکری مر جائے ، ( تو یہ حکم ہے ) کیونکہ غنی پر اس کی جگہ دوسری کرنا لازم ہے اور فقیر پر کچھ بھی نہیں ہے یعنی جب فقیر کی قربانی کے لیے خریدی ہوئی بکری مر جائے ، ( تو اس پر کچھ لازم نہیں ہے ) کیونکہ فقیر کے لیے وہی معین تھی اور وہ مر گئی ہے ۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے ۔

( البنایہ ، کتاب الاضحیۃ ، جلد12، صفحہ 43،44، مطبوعہ کوئٹہ )

    صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں فرماتے ہیں: ”قربانی کا جانور مر گیا، تو غنی پر لازم ہے کہ دوسرے جانور کی قربانی کرے اور فقیر کے ذمہ دوسرا جانور واجب نہیں اور اگر قربانی کا جانور گم ہوگیا یا چوری ہوگیا اور اوس کی جگہ دوسرا جانور خرید لیا، اب وہ مل گیا ،تو غنی کو اختیار ہے کہ دونوں میں جس ایک کو چاہے قربانی کرے اور فقیر پر واجب ہے کہ دونوں کی قربانیاں کرے۔ مگر غنی نے اگر پہلے جانور کی قربانی کی تو اگرچہ اس کی قیمت دوسرے سے کم ہو کوئی حرج نہیں اور اگر دوسرے کی قربانی کی اور اس کی قیمت پہلے سے کم ہے ،تو جتنی کمی ہے اوتنی رقم صدقہ کرے ،ہاں اگر پہلے کو بھی قربان کر دیا، تو اب وہ تصدق واجب نہ رہا۔“

(بھار شریعت ، جلد3، صفحہ 342، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مفتی محمد قاسم صاحب

 

بھینسے اور بھینس کی قربانی کا حکم؟

 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 بھینس اور بھینسے  کی قربانی  کرنا،بلاشبہ جائز ہے ،ا س میں شرعی طور پر  کوئی حرج  نہیں ،کیونکہ بھینس ،گائے ہی کی جنس (Gender)میں سے ہے ، تو جس طرح گائے کی قربانی کرنا ،جائز ہے،یونہی بھینس کی قربانی کرنا بھی جائز ہے اور  یہ بات قرآن وحدیث ،اجماعِ علما، مفسّرین ،محدثین اور ائمۂ مجتہدین کےاقوال سے ثابت ہے۔ 

•قرآنِ پاک سے ثبوت:

    اللہ پاک نے قربانی  کے جانوروں کے لیے’’بَہِیۡمَۃِ الْاَنْعَامِ ‘‘ کا لفظ ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنۡسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الْاَنْعَامِ) ترجمہ کنزالعرفان:اور ہر امت کے لیے ہم نے ایک قربانی مقرر فرمائی تا کہ وہ اس بات پر اللہ  کا نام یاد کریں کہ اس نے انہیں بے زبان چوپایوں سے رزق دیا۔

 (پارہ 17 ،سورۃ الحج ،آیت 34)

    اور پھر خود قرآنِ کریم نے  ’’بَہِیۡمَۃِ الْاَنْعَامِ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے بیان فرمایا:(ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ…وَ مِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ) ترجمہ کنزالعرفان:(اللہ  نے) آٹھ نر و مادہ جوڑے (پیدا کیے) ایک جوڑا بھیڑ سے اور ایک جوڑا بکری سے... اور ایک جوڑا اونٹ کا اور ایک جوڑا گائے کا۔

(پارہ8،سورۃ الانعام ،آیت 143،144)

    اوپر بیان کردہ  آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں مشہور تابعی مفسّرحضرت   لیث بن ابو سلیم علیہ الرحمۃ  فرماتے ہیں :”الجاموس والبختي من الأزواج الثمانية “ ترجمہ:بھینس اور بختی (اونٹ کی ایک قسم)  اُن آٹھ جوڑوں میں سے ہی ہیں(جن  کا اللہ پاک نے ذکر فرمایا)۔

(تفسیرِ درمنثور ،تحت ھذہ الآیۃ ،جلد3 ،صفحه 371 ،مطبوعه دارالفكر، بيروت)

    معلوم ہوا کہ بھینس  ثمانیۃ ازواج اور بھیمۃ الانعام میں داخل ہے ،لہٰذا اس کی قربانی کرنا بھی جائز ہے۔

•حدیثِ پاک سے ثبوت:

    سننِ ابو داؤد میں ہے:”عن جابر بن عبد اللہ، أن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال:البقرة عن سبعة، والجزور عن سبعة  “ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:گائے سات افراد کی طرف سے اور اونٹ  بھی سات افراد  کی طرف سے (قربان ہو سکتاہے )۔

(سننِ ابو داؤد ،کتاب الضحايا ،باب فی البقر والجزور عن کم  تجزی ،جلد2صفحہ 40 ،مطبوعہ لاھور)

    حدیثِ پاک میں” بقرۃ“   کا لفظ استعمال کیا گیا اور بقرۃ ایک جنس ہے جس کے تحت مختلف قسم کے جانور آتے ہیں،ان میں سے ایک جاموس یعنی بھینس بھی ہے ،جیساکہ لسان العرب میں  ہے:’’البقر جنس والجاموس نوع من البقر‘‘ ترجمہ:گائے جنس ہے اور اسی کی قسم جاموس یعنی بھینس ہے۔

 (لساب العرب ،جلد 6 ،صفحہ 51 ،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

    حضرت مولائے کائنات علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں :”الجاموس تجزی عن سبعة فی الأضحيۃ “ ترجمہ:بھینس قربانی میں سات افراد کی طرف سے کافی ہے ۔  

(مسندالفردوس ،کتاب الاضحیۃ ،جلد 2 ،صفحہ124 ،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ،بیروت )

•اقوالِ ائمہ سے ثبوت:

    مصنّف ابنِ ابی شیبہ میں  ہے:” عن الحسن انّہ  کان یقول : الجوامیس بمنزلۃ البقر “ ترجمہ:حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ بھینس گائے کی طرح ہی ہے( یعنی تمام احکام میں گائے کی طرح ہے)۔

(مصنف ابن ابی شیبہ  ،جلد4،صفحہ357، رقم:10839،مطبوعہ مکتبۃ الرشد)

    فقہِ حنبلی کے بانی حضرت ِ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے بھینس کی قربانی کے متعلق سوال کیاگیا ،تو آپ  نے فرمایا:”لااعرف خلاف هذا “ ترجمہ:میں  اس کے جواز کے متعلق  کسی کااختلاف نہیں جانتا۔

 (مسائل الامام احمد بن حنبل ،کتاب الاضحیۃ ،صفحہ 4027 ،مسئلہ2865،مطبوعہ مدینۃالمنورۃ)

    علامہ ابنِ مُنذِر نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:318ھ)  لکھتے ہیں:” واجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر  “ترجمہ:اور علماء کااس بات پر اجماع ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے۔

(الاجماع ،کتاب الزکاۃ،صفحہ 52 ،مطبوعہ مکتبۃ الفرقان ،دولۃ الامارات العربیہ)

کروڑوں مالکیوں کے پیشوا امامِ مالک  بن انس رضی اللہ عنہ  فرماتےہیں :”انّما ھی بقر کلّھا “ ترجمہ:بے شک بھینس تمام احکام میں گائے کی طرح ہے۔

 (مؤطا امامِ مالک ،کتاب الزکوٰۃ ،ماجاء فی صدقۃ البقرۃ ،صفحہ 294 ،مطبوعہ کراچی )

    حضرت امامِ یحیٰ بن شرف نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”انّ البقر جنس  ونوعہ الجوامیس  “ترجمہ:گائے جنس ہے اور بھینس اسی کی قسم  ہے(لہٰذا جو احکام گائے کے ہیں وہی بھینس کے ہیں)۔

  (المجموع شرح المھذب ،کتاب الزکاۃ ،باب زکاۃ الغنم ،جلد6،صفحہ 426 ،مطبوعہ دارالکتب  العلمیہ ،بیروت)

    فقیہ النفس امام قاضی خان  حنفی  رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات :592 ھ) لکھتے ہیں:”الاضحیۃ تجوز من اربع من الحیوان الضان والمعز والبقر والابل ذکورھا واناثھا وکذلک الجاموس لانّہ نوع من البقرالاھلی “ ترجمہ:جانوروں میں سے چار کی قربانی  جائز ہے،بھیڑ، بکری ،گائے اوراونٹ ،ان کے مذکر و مؤنث (دونوں کی جائز ہے)اسی طرح بھینس کی قربانی بھی جائز ہے،اس لیے کہ یہ پالتو گائے کی ہی قسم ہے۔

(فتاویٰ قاضی خان ،کتاب الاضحیۃ ،فصل فیما یجوز فی الضحایا ،جلد3،صفحہ348 ،مطبوعہ کوئٹہ)

    اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے:)”اما جنسه )فهو ان يكون من الاجناس الثلاثة الغنم او الابل او البقر و يدخل فى كل جنس نوعه و الذكر و الانثى منه الخصى و الفحل لاطلاق اسم الجنس على ذالك والمعز نوع من الغنم و الجاموس نوع من البقر   “ترجمہ:بہرحال جانور کی جنس ،تو وہ  بکری ،اونٹ ،اور گائے تین اجناس   میں سے ہو اور ہر ایک کی جنس میں اس کی نوع بھی داخل ہے،چاہے وہ  جانور نر ہو یا مادہ ،خصی ہو یا غیر خصی اور  بھیڑ ،بکری کی اوربھینس ،گائے کی ہی ایک قسم ہے۔

(فتاوی عالمگیری  ،کتاب الاضحیۃ ،الباب الخامس ،جلد5،صفحہ 297 ،مطبوعہ کوئٹہ)

    شیخ الاسلام والمسلمین اعلیٰ حضرت امام احمد  رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1340ھ ) لکھتے ہیں:”حقیقت یہ ہے کہ علماء کے نزدیک بھینس کا گائے کی ہی نوع میں ہونا ثابت ہوا ،تو انہوں نے کہا کہ قرآن کا لفظِ بقر بھینس کو شامل ہے۔ “

(فتاویٰ رضویہ ،جلد20،صفحہ 401،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مفتی محمد قاسم صاحب

 

قربانی کے جانور میں عقیقہ کرنا کیسا ؟‎

 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

     قربانی کے جانور میں عقیقے کا حصہ رکھنا جائز ہے ، اس میں  کوئی حرج نہیں، البتہ حصہ رکھنے میں افضل یہ ہے کہ لڑکے کے عقیقے کے لیے دو حصے اور لڑکی کے عقیقے کے لیے ایک حصہ رکھا جائے ، اگر کسی نے لڑکے کے عقیقے کے لیے ایک حصہ بھی رکھا ، جب بھی کوئی حرج نہیں ۔ نیز عقیقے کے گوشت کے قربانی کی طرح تین حصے کرنا مستحب ہے ، جو بچےّ کے والدین ، دادا دادی ، نانا نانی ، امیر غریب ہر کوئی کھا سکتا ہے ۔

     حاشیۃ الطحطاوی میں ہے : ”و لو ارادوا القربۃ الاضحیۃ او غیرھا من القرب اجزأھم سواء کانت القربۃ واجبۃ او تطوعا او وجب علی البعض دون البعض و سواء اتفقت جھۃ القربۃ او اختلفت ۔۔۔ کذلک ان اراد بعضھم العقیقۃ عن ولد ولد لہ من قبلہ “ترجمہ : ( ایک جانور میں شریک ) لوگوں نے ( اس جانور میں )قربانی کی قربت کی نیت کی ہو یا قربانی کے علاوہ کسی اور قربت کی نیت ہو ، تو یہ نیت کرنا ان کو کافی ہوجائے گا ۔ چاہے وہ قربتِ واجبہ ہو یا نفلی قربت ہو یا بعض پر واجب ہو اور بعض پر واجب نہ ہو ، چاہے قربت کی جہت ایک ہی ہو یا مختلف ہو ۔۔۔۔ اسی طرح  اگر ( ایک جانور میں شریک ) لوگوں میں سے بعض نے اِس سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کے عقیقے کی نیت کی ( تو بھی جائز ہے ۔ )( حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار ، کتاب الاضحیۃ ، جلد 4 ، صفحہ 166 ، مطبوعہ کوئٹہ )

     سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ”عقیقہ کا گوشت آباء و اجداد بھی کھا سکتے ہیں ۔ مثلِ قربانی اس میں بھی تین حصے کرنا مستحب ہے ۔ “( فتاویٰ رضویہ ، جلد 20 ، صفحہ 586 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

     صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ امجدیہ میں فرماتے ہیں :”عوام میں یہ بہت مشہور ہے کہ عقیقہ کا گوشت بچہ کے ماں باپ اور دادا دادی ، نانا نانی نہ کھائیں ، یہ محض غلط ہے ، اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ “ ( بھارِ شریعت ، حصہ 15 ، جلد 3 ، صفحہ 357 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

     فتاویٰ امجدیہ میں فرماتے ہیں : ”کتبِ فقہ میں مصرح ( یعنی اس بات کی صراحت کی گئی ہے ) کہ گائے یا اونٹ کی قربانی میں عقیقہ کی شرکت ہوسکتی ہے ۔۔۔۔ تو جب قربانی میں عقیقہ کی شرکت جائز ہوئی ، تو معلوم ہوا کہ گائے یا اونٹ کا ایک جزء عقیقہ میں ہوسکتا ہے اور شرع نے ان کے ساتویں حصہ کو ایک بکری کے قائم مقام رکھا ہے ، لہٰذا لڑکے کے عقیقہ میں دو حصے ہونے چاہیے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ یعنی ساتواں حصہ کافی ہے ، تو ایک گائے میں سات لڑکیاں یا تین لڑکے اور ایک لڑکی کا عقیقہ ہوسکتا ہے ۔ بعض عوام میں یہ مشہور ہے کہ عقیقہ کا گوشت والدین نہ کھائیں ، غلط ہے ۔ والدین بھی کھا سکتے ہیں اور غنی کو بھی کِھلا سکتے ہیں ۔ “( فتاویٰ امجدیہ ، جلد 3 ، صفحہ 302 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مفتی محمد قاسم صاحب

 

کتنی مالیت ہو تو قربانی واجب ہے؟‎

 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

    جس شخص کی ملکیت میں دوسودرہم(ساڑھے باون تولہ چاندی)یابیس دینار(ساڑھے سات تولہ سونا)ہوں یاسوناچاندی نصاب سےکم ہو ، لیکن جس قدرہے ، اُس کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت(جوآج 08اگست2018ء کوتقریباً37ہزارآٹھ سوروپےبنتی ہے)کو پہنچتی ہو، یوں ہی حاجت اصلیہ(یعنی وہ چیزیں جن کی انسان کوحاجت رہتی ہے،جیسے رہائش گاہ،خانہ داری کےوہ سامان جن کی حاجت ہو،سواری اورپہننے کے کپڑے وغیرہ ضروریاتِ زندگی)سے زائد اگرکوئی ایسی چیزہوجس کی قیمت(فی زمانہ)ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرہو ، تووہ نصاب کامالک ہےاوراُس پر قربانی واجب ہے۔

     یاد رہے  کہ عورتوں پربھی شرائط پائی جانے کی صورت میں قربانی واجب ہوتی ہے، جس طرح مرودوں پرواجب ہوتی ہے۔

     قربانی واجب ہونے کانصاب بیان کرتے ہوئے”بدائع الصنائع“میں علامہ ابوبکربن مسعودکاسانی حنفی(متوفی587ھ)فرماتے ہیں:” فلا بد من اعتبار الغنى وهو أن يكون في ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء تبلغ قيمته ذلك سوى مسكنه وما يتأثث به وكسوته وخادمه وفرسه وسلاحه و مالا يستغنی عنه وهو نصاب صدقة الفطر “ترجمہ:(قربانی میں)مالداری کااعتبارہوناضروری ہے اوروہ یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں دوسو درہم(ساڑھے باون تولہ چاندی)یابیس دینار(ساڑھے سات تولہ سونا)ہوں یارہائش،خانہ داری کے سامان، کپڑے،خادم،گھوڑا،ہتھیاراوروہ اشیاء جن کے بغیرگزارہ نہ ہو،کے علاوہ کوئی ایسی چیزہو ، جواس(دوسودرہم یابیس دینار)کی قیمت کوپہنچتی ہواوریہ ہی صدقہ فطرکانصاب ہے۔(بدائع الصنائع،کتاب التضحیۃ،ج4،ص196،مطبوعہ،کوئٹہ)

صدالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی(متوفی1367ھ)فرماتے ہیں:”جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت کےسوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دوسو درہم ہو وہ غنی ہے اوس پر قربانی واجب ہے۔ حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہو اور سواری کا جانور اور خادم اور پہننے کے کپڑے ، ان کے سوا جو چیزیں ہوں ، وہ حاجت سے زائد ہیں۔“ (بہارِشریعت،ج3،ص333،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

     امام اہلسنت الشاہ امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن(متوفی1340ھ)فرماتے ہیں:”قربانی واجب ہونے کے لئے صرف اتنا ضرور ہے کہ وہ ایام قربانی میں اپنی تمام اصل حاجتوں کے علاوہ ۵۶ روپیہ(اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے دور میں رائج الوقت چاندی کے سکے ) کے مال کا مالک ہو، چاہے وہ مال نقد ہو یا بیل بھینس یا کاشت۔ کاشتکار کے ہل بَیل اس کی حاجت اصلیہ میں داخل ہیں ، ان کا شمار نہ ہو۔۔۔اور جس پر قربانی ہے اور اس وقت نقد اس کے پاس نہیں ، وہ چاہے قرض لے کر کرے یااپنا کچھ مال بیچے۔“(فتاوی رضویہ،ج20،ص370،رضافاونڈیشن،لاھور)

     ”تبیین الحقائق“میں علامہ زیلعی حنفی فرماتے ہیں:”ويضم الذهب إلى الفضة بالقيمة فيكمل به النصاب لأن الكل جنس واحد“ترجمہ:سونے کو چاندی کے ساتھ قیمت کے اعتبار سے ملاکر نصاب مکمل کیاجائے گا ، کیونکہ یہ آپس میں ہم جنس ہیں۔(تبیین الحقائق،کتاب الزکاۃ،باب زکاۃالمال،ج2،ص80،مطبوعہ، کوئٹہ)

     ”فتاوی رضویہ“میں ہے:”قابلِ ضم وہی ہے ، جو خود نصاب نہیں ، پھر اگر یہ قابلیت ایک ہی طرف ہے ، جب تو طریقہ ضم آپ ہی متعین ہوگا ۔ کما سبق(جیسا کہ پیچھے گزرایعنی کہ اس غیر نصاب کو اُس نصاب سے تقویم کرکے ملا دیں)اور دونوں جانب ہے ، تو البتّہ یہ امر غور طلب ہوگا کہ اب ان میں کس کو کس سے تقویم کریں کہ دونوں صلاحیتِ ضم ر کھتے ہیں، اس میں کثرت و قلّت کی وجہ سے ترجیح نہ ہوگی کہ خواہی نخواہی قلیل ہی کو کثیر سے ضم کریں کثیر کو نہ کر یں کہ جب نصابیت نہیں تو قلیل و کثیر دونوں احتیاجِ تکمیل میں یکساں۔۔۔۔۔بلکہ حکم یہ ہوگا جو تقویم فقیروں کے لیے اَنفع ہو ، ا سے اختیار کریں، اگر سونے کو چاندی کرنے میں فقراء کا نفع زیادہ ہے تو وہی طریقہ برتیں اور چاندی کو سونا ٹھہراتے ہیں ، تو یہی ٹھہرائیں اور دونوں صورتیں نفع میں یکساں ، تو مزکی(زکوٰۃدینے والے) کو اختیار۔ “(فتاوی رضویہ،ج10،ص116،رضافاونڈیشن،لاھور)

     عورتوں پربھی قربانی واجب ہوتی ہے۔جیساکہ درمختارمیں علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ رحمۃاللہ القوی ارشادفرماتے ہیں:”وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسارالذی يتعلق به )وجوب(صدقة الفطرلا الذكورة فتجب على الأنثى)“یعنی قربانی واجب ہونے کی شرائط یہ ہیں:مسلمان ہونا،مقیم ہونا،ایسی مالداری ، جس سے صدقہ فطرواجب ہوتاہو۔مردہوناشرط نہیں لہذا عورت پربھی واجب ہے۔(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الاضحیۃ،ج09، ص520،مطبوعہ، کوئٹہ)

     صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی نے قربانی واجب ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے یہ مسئلہ ارشادفرمایا:”مرد ہونا اس کے لیے (قربانی واجب ہونے کے لئے)شرط نہیں۔ عورتوں پر واجب ہوتی ہے ، جس طرح مردوں پر واجب ہوتی ہے ۔ “ (بہارِشریعت،ج03،ص332،مکتبۃالدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مفتی محمد قاسم صاحب